اس تحریر کے پچھلے حصے کو لکھے ہوئے یوں تو کافی دن بیت گئے ہیں لیکن اس سفر کو دل ہی دل میں، میں
روزانہ دہراتی ہوں – لگتا ہے ہی کبھی دل سے نکل ہی نہیں سکتا
جی تو پچھلا پڑاؤ عطاآباد جهیل پہ آ کے رکا تھا اور کشتی سے اترنے کے بعد ہم میں سے کچھ قدرت کے نظاروں کو اپنی آنکھ اور باقی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر رہے تھے- وہاں سے ہم نے درمیانے سائز کی وین میں آگے خنجراب تک جانا تھا؛ پہلے تو ہم شریفوں کی ٹولی بنے احتمام کے ساتھ اندر بیٹھ گئے لیکن آگے جا کر جب “ویلکم ٹو پاسو” والے منظر پہ نگاہ پڑی اور ارد گرد ہر سو عجیب نوکیلے لمبے لیکن پتلے پہاڑ دیکھے تو گویا جیسے اندر بجلی دوڑ گئی ہو؛ سب نے وہاں سڑک کنارے گاڑی رکوا کے باہر چهلانگ لگا دی، کسی نے دروازے سے اور کسی مجھ جیسے هووش نے کھڑکی سے ہی- بس پہر کیا تھا، سب نے چند منٹوں تک وہاں پاگلوں کی طرح ناچا اور سڑک کے بیچ بیٹھ کر تصاویر کھنچوائی اور تب تک ہمیں ماحول نے اتنا ترو تازا کر دیا تھا کہ ہم نے باقی کا سفر گاڑی کی چهت پر بیٹھ کر کرنے کا کیا- قراقرم کی ڈولتی سڑکوں پہ اطراف سے فل سپیڈ میں چلنے والی برفیلی ہواؤں کو ناک میں داخلی سے بچاو کیلئےکپڑا منہ پر ڈالے، پاسو کونز کی اونچائی کو نظروں سے ناپتے اور دل سے “سبحان اللہ ” کہتے ہم سانپ جیسی بل کھاتی روڈ پر منزلِ خنجراب کو نکل لیے